یونیورسٹی آف لاہور کے سٹوڈنٹس سے منسوب ویڈیو اور واقعہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے۔نکاح کا پروپوزل ہی دینا تھا، تو لڑکا والدین کو لے کر لڑکی کے گھر جاتا۔ لیکن جب لڑکی نے چھپ کر Abortion کروانا ہو۔ جب لڑکے نے مردہ اور حاملہ گرل فرینڈ کو ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہونا ہو۔ جب نکاح مقصد ہی نہ ہو۔ جب پاکیزگی پیش نظر ہی نہ ہو تو پھر واردات کا آغاز ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔<br> اسلامی Perspective سے تو ایسی سرعام بغل گیری اور بے حیائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ سورۃ النور کی آیت 31 میں تو پاکیزگی، حیا، زینت کے چھپانے کی تعلیم ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی نے بے حیائی کے Ambassadors ان دونوں سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا۔ یہ یقیناً خوش آئند ہے۔<br> ”مسلمان سائنس میں پیچھے رہ گئے“ کا ڈھول پیٹنے والے غور کریں کہ مسلم ملک کی یونیورسٹیز ہزاروں، لاکھوں روپے فیس وصول کرتی ہیں۔ اور سٹوڈنٹس میدان تحقیق میں جھنڈے گاڑنے کی بجائے میدانِ عشق میں باغبانی اور بغل گیری فرما رہے ہیں۔ لیجئے عورت مارچ کا ایک اور غیر سرکاری نتیجہ حاضر ہے۔ ”م س“ ہسپتال کے سیکورٹی کیمرے کو کوستی ہوگی: ”نگوڑے، نکمے! تیرا ککھ نہ رہے۔۔- تو نے عورت مارچ اور بغل گیری پرپوزل کے ڈھول کا پول کھول دیا۔۔۔“ سیکورٹی کیمرہ مسکرایا ہوگا اور دھیرے سے کہتا ہوگا: ” میرے لینز، میری مرضی“<br>